وعدہ معاف گواہ
Admin
07:40 AM | 2020-03-17
وعدہ معاف گواہ کے بیان پر کیا کسی کو سزا ہوسکتی ہے ؟صرف وعدہ معاف گواہ پر سزا نہیں ہوسکتی قعتا نہیں ہوسکتی ہے ۔ وعدہ معاف گواہ کے بارے میں ایک طریقہ کارہے کہ تفتیشی افسر یا انکوئری آفیسرعدالتوں کی تفتیش کے دوران، انکوائری عدالتوں کے دوران،ٹرائل عدالتوں کے دوران کسی بھی مرحلے پرکوئی بھی جج یا تفتیشی افسر سمجھتا ہے کہ فلاں شخص اس کیس میں ملزم ہے وہ تمام حقائق بتا سکتا ہے، تو اگر اس کوقائل کرلیا جائے، اس کو وعدہ معاف گواہ بنایا جائے تو وہ تمام سچ بتا دے گا ،تو پھر اس کو تحریری طور پر ٹینڈر کیا جاتا ہے ۔ یہاں پر ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر آپ کو پارڈن ٹی
نڈر تحریری طور پر نہیں کیا گیا ،اگر آپ کو تحریری شکل میں وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش نہیں کی اور آپ کا بیان ریکارڈ کر لیا جاتا ہے تو بھئی آپ بُری طرح پھس گئے، آپ کو پارڈن نہیں ملے گا آپ کو چھوٹ نہیں ملے گی بلکہ آپ کا وہ بیان آپ کے خلاف استعمال ہوگا ۔ اب دوسری چیز آگئی کہ دفعہ 338،337 اور 339 تحت ریکارڈ کیا گیا بیان اور164 کے تحت ریکارڈ کیا گیا بیان ان میں فرق کیا ہے;238; 337،338،339 صرف ڈیل کرتے ہیں اپروور کو وعدہ معاف گواہ کو اس کا میکانزم ہی اور ہے اس میں عدالت یہ نہیں کہتی کہ یہ بیان تمہارے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے اس بیان کی وجہ سے تمہیں سزا بھی ہوسکتی ہے صرف یہ یقین دہانی کرتی ہے کہ تم نے مکمل اور سچا انکشاف کرنا ہے اگر مکمل اور سچا انکشاف نہیں کروگے تو تمہارا یہ بیان نہیں مانا جائے گا لیکن 164 کی ضروریات اور ہیں 164 کی ضرورت میں مجسٹریٹ باقاعدہ طور پربتا دیتا ہے بیان دینے والے کو کہ بھئی یہ بیان تمہارے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے اس بیان کی بنیاد پے تمھیں سزا بھی ہوسکتی ہے تم اپنی آزاد مرضی سے دے رہے ہو لیکن جب پارڈن ٹینڈر کیا جاتا ہے تو قتل کے مقدموں میں جب تک مظلوم یا مظلوم کے لواحقین ؟لواحقین سے مراد قانونی وارث اجازت نہیں دیں گے تو پارڈن ٹینڈر نہیں کرسکتے کوئی بھی عدالت ٹینڈر کرسکتی ہے نہ تفتیشی ایجنسیاں ٹینڈر کرسکتی ہے پارڈن ٹینڈر جب تک ان کی اجازت نہیں ہوگی337،338،339کے تحت دی گئی بیان وعدہ معاف گواہ کے طور پر ہے164 کے تحت دی گئی بیان اقبا ل جرم کے زمرے میں آتی ہے اقرار جرم اقبال جرم کے زمرے میں آتی ہے لہذا یہ بڑا فرق ہے اس میں ۔ واپس اپنے نقطے پر آتے ہیں کہ اپروور کو پارڈن ٹینڈر ہوا اس کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی پیشکش ہوئی ۔ پیشکش ہونے کے بعد وہ بیان دیتا ہے تو اس بیان کو ڈبل ٹیسٹ ملے گا جس میں اس کا پاس ہونا بہت ضروری ہے وہ دو کسوٹیوں میں سے گزرے گا اور اگر وہ ڈبل ٹیسٹ پاس نہیں کرتا تو اس کا بیان درست نہیں تسلیم کیا جائے گا ۔ پہلا عدالت اس چیز کی یقین دہانی کرئے گی کہ کیا یہ گواہ قابل بھروسہ ہے ؟میں بطور اپروور مجھے پارڈن ٹینڈر ہوتا ہے میر ے خلاف مقدمے کے سلسلے ہیں فراڈ کے ، قتلوں کے پہلے ہی اس نوعیت کے مقدمات میں شامل ہوں میں تذکیہ اور شہود پے پورا نہیں اترتا یہ پہلا ٹیسٹ ہوگا ۔ اگر یہ بیریر میں کراس کر گیا کہ ہاں میں قابل اعتماد ہوں تودوسرا ٹیسٹ کہ میں جو کہہ رہا ہوں تو وہ موجودہ حالات و واقعایات کے ساتھ جمع کررہے ہیں یا نہیں اگر موجود حالات وواقعایات کے ساتھ جمع کررہے ہیں توپھر میرے بیان کو تسلیم کیا جائے گا اور جیسے ہی میرے بیان کو ریکارڈ کیا جائے گا بطور اپروور تو میرا گواہ کی حیثیت سے ہوجائے گا میں بطور گواہ پیش ہوءوں گا اور دفاع اور جو ہمراہی ملزمان ہے ان کے پاس مکمل اختیار ہوگا مجھے جراح کرنے کا، مجھے جھوٹا ثابت کرنے کا مکمل اختیار ہوگا اگر وہ جھوٹا ثابت کرگئے پھر بھی میرا بیان نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ جھوٹا ثابت نہ کرسکے تو پھرمیرا بیان بدرجہ اتم موجود تصور کی جائے گی اور سچائی پر مبنی تصور کی جائے گی اور اس بیان کی بنیاد پے سزا ہوگی ۔ اب جس کو پارڈن ٹینڈر کیا جارہا ہے کہیں وہ پریشر میں تو نہیں رکھ کے کیا جارہا اس کو مجبوریا بلیک میل نہیں کیا جارہا ہے کہ تم وعدہ معاف گواہ بنو اس کودھمکی تو نہیں دی جارہی کہ تم وعدہ معاف گواہ بنو اس چیز کو بھی عدالت نے دیکھنا ہے ۔ نواز شریف کیس2009 پی ایل ڈی صفحہ814 سپریم کورٹ اس ڈبل ٹیسٹ سے اسوعدہ معاف گواہ کو گزارا گیا اور کیا یہ سامنے آیا جس کی بنیادپر اپروورکے ثبوت کو خارج کردیا گیا ۔ انھوں نے کہا نہیں ہم نہیں یہ مانیں گے وہ فیکٹ کیا سامنے آیا کہ جو شخص وعدہ معاف گواہ بنا جس کو پارڈن ٹینڈر کیا گیا جس دن پارڈن ٹینڈر کیا گیا اس سے پہلے وہ فورسز کی تحویل میں تھا جب یہ بات سپریم کورٹ کے سامنے لائی گئی حالیہ مرحلے پر جھکے ہوئے مرحلے پر کہ جناب یہ وعدہ معاف گواہ جو اس تاریخ کو بیان دے رہا ہے اور اس سے پہلے یہ بندہ دو ماہ سے فورسز کی تحویل میں تھا پھر تفتیشی ایجنسی کے حوالے کیا اور تفتیشی ایجنسی نے سیدھا جاکے اس کا بیان ریکارڈ کروایا بطوروعدہ معاف گواہ تو عدالتوں نے اس کو خارج کیا کہ اگروعدہ معاف گواہ وہ غیر قانونی تحویل میں ہے اس بیان دینے سے پہلے غیر قانونی حراست میں رہا ہے تو اس کے بیان کو نہیں مانا جائے گا یہ تصور کیا جائے گا کہ اس کو دھمکی دے کے یہ بیان دلوایا گیا ہے اس کو مجبور کرکے بیان دلوایا گیا ہے اس کو بلیک میل کرکے بیان دلوایا گیا ہے جو پہلے ڈبل ٹیسٹ بتایا اس کا بھی اس میں مکمل ذکر ہے ۔
Leave a comment