طلاقِ تفویز اور طلاقِ بیان
Admin
09:11 AM | 2020-02-11
آج کا جولیکچر ہے اس میں میں دو چیزیں آپ کو واضع کروں گا ۔ ایک تھا طلاقِ تفویز اوردوسرا طلاق ِبیان مسئلے مسائل کیا ہیں وہ میں آپ کو بتا دوں طلاق خلع کی بنیاد پے لینے، طلاق سرٹیفیکیٹ جاری ہونے، طلاق نامہ موجود نہ ہو، خلع بذریعہ مختار خاص، خلع کے بعد دوبارہ اکٹھا یہ وہ موضوع ہیں جن کے اوپرآج آپ کو میں قانون کے تناظر میں اور شریعت کے تناظر میں آپ کو بیان کروں گا ۔ طلاقِ تفویز کیا ہے؟طلاقِ تفویز شوہر اپنا حق اپنی بیوی کو دے دیتا ہے کہ میں تمھیں طلاق نہ دوں تو تم طلاق لے سکتی ہو ۔ اس کے پیچھے ڈاکٹرین کیا ہے؟ یہ ایک چیک ہوتا ہے بندے کے اوپر جس کا رویہ اپنی ب
یوی کے ساتھ متشدد ہوتا ہے ۔ جو شخص اپنی بیوی کو مطلوبہ بینر کے تحت برقرار نہیں کر رہا جو اس کو ازدواجی معاملات میں غفلت کر رہا ہے ۔ ایسا شخص جس کے آباو اجداد کا نہیں پتا اور وہ اپنی بیوی کو برقرار بھی نہیں کرسکتا یا کررہا ۔ ایسا شخص جولاپتہ ہے ایک طویل وقت سے اور اسکے آباواجداد کا کچھ پتا ہی نہیں ہے اس کے لئے طلاقِ تفویز شریعت نے دی ۔ طلاقِ تفویز بیوی کو بھی ہوسکتی ہے اور کسی تیسری بندے کو بھی ہوسکتی ہے ۔ اسکا بیوی کا ولی بھی ہوسکتا ہے یا باہمی تشویش کے ساتھ جو پریشانیاں عام لوگوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ صرف یہ کرنی پڑ رہی ہیں کہ ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ یہ معاملات کیا ہیں ؟خلع طلاقِ تفویز کی ایک مثال ہے کہ عورت عدالت کے ذریعے خلع لے سکتی ہے ۔ خلع کے بارے میں یہ تصور ہے کہ خلع ہونے کے بعد عورت اورمرددوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں بطور میاں بیوی عدالتوں میں بڑے واضع الفاظ میں کہا ہے کہ خلع مطلب ہے ایک طلاق وہ ایک طلاق کے مترادف ہے اس کو طلاقِ بیان کہتے ہیں ۔ اس کے بعد میاں بیوی کے اندر صلع ہوجائے تووہ دوبارہ اکٹھا ہوسکتے ہیں وہ دوبارہ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں مگر ایک شرط کو پورا کرنے کے بعدوہ شرط یہ ہے کہ وہ دوبارہ تازہ نکاح کریں گے ۔ بے شمار عدالتوں میں اس کو اعلیٰ عدلیہ نے تفصیلاََ لکھا ہے میں آپ کے نالج کے لئے وہ حوالہ بھی کر دیتا ہوں تاکہ اگر آپ کسی بھی شہر سے ہیں اور آپ کے وکلاں کو اس کے بارے میں علم نہیں ہے یا آپ نے جو وکیل کئے ہیں ان کی ماہرین ان میں نہیں ہے تو آپ کی آسانی کے لئے اور اپنے وکلاء بھائیوں کی آسانی کے لئے یہ تین فیصلے آپ کو بتارہا ہوں جس میں یہ سارا تصور تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ 4 201 سی ایل سی صفحہ 660کوءٹہ ہائی کورٹ کی ہے،2011 سی ایل سی صفحہ 1211 کوءٹہ ہائی کورٹ کی ہے پی ایل ڈی 2010 کراچی صفحہ131 ، ایم ایل ڈی 2000 صفحہ 447 پاگع یہ وہ فیصلے ہیں جن میں اس سارے معاملات کو بڑا تفصیلاََ بات چیت کی گئی ہے اور فیڈرل شیر کورٹ کی بھی ایک فیصلہ ہے 2013 ایم ایل ڈی صفحہ11 17 فیڈرل شریعت کورٹ ۔ اگر یہ فیصلے آپ پڑھ لیں تو آپ کو خلع کے تصور کا پتا چل جاتا ہے ۔ مجھے ایک شخص کا فون آیا کہ میں بیرون ملک ہوں اور میری بیوی نے خلع دائر کر کے میرا ایڈریس بھی غلط لکھا یہ بھی افشا نہیں کیا میں بیرون ملک ہوں اور خلع لے لی ۔ اس نے مجھ سے مکمل حق مہر وصول کر لیا تھا ۔ عدالت نے یہ کہا کہ پچاس فیصد حق مہر وہ واپس کرئے گی وہ پچاس فیصد حق مہر واپس نہیں کیا گیا میں اس خلع کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں ۔ بھئی ایک بات تو آپ ذہن نشین کرلیں کہ خلع کی راہ میں حق مہر کا دینا یا نا دینا رکاوٹ نہیں ہے ۔ خلع جب اعلان ہوجاتی ہے جج اس دعوے کو ڈگر ی کر دیتا ہے تو اس بنیاد پے آپ اس خلع کو چیلنج نہیں کر سکتے ۔ بدقسمتی سے قانون نے اس کی اجازت دی ہی نہیں ہے ہاں آپ اس چیز کو چیلنج کرسکتے ہیں کہ اس بیوی نے پورا حق مہر لے لیا تھا آدھا حق مہر میں نے واپس نہیں لیا ابھی تک یہ آدھا حق مہر مجھے واپس دلوایا جائے اس حد تک آپ چیلنج کرسکتے ہیں ۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ خاندانی سسٹم پاکستا ن میں ایسا ہے کہ کہیں دفعہ ہوتا ہے کہ بیوی جو ہے وہ نکاح نامہ پاس نہیں کرتی نکاح نامہ اس کے پاس نہیں ہوتا ۔ دو دو بچوں کی، ایک ایک بچے کی، تین بچے کی یا کسی بھی بچے کی ماں نہیں ہوتی یا ہوتی ہے اس کے بارے میں میں آپ کو بتا دوں کہ اگر نکاح نامہ موجود نہیں تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے لیکن عدالتیں کیونکہ یہاں پے مکینیکل طریقہ میں فیصلہ نہیں کرتیں ۔ عدالتوں کو کچھ نہ کچھ ثبوت چاہیے خواہ وہ زبانی ثبوت کی شکل میں خواہ وہ دستاویزی ثبوت کی شکل میں ہو ۔ خواہ وہ زبانی شہادت میں ہو خواہ وہ دستاویزی کاغذی شہادت میں ہو ۔ عدالت نے اپنا دماغ واضع کرنا ہوتا ہے کہ جس کو میں چھوٹ دینے جارہا ہوں یا جس کو میں انکار کرنے جارہا ہوں میرا دماغ واضع ہونا چاہیے ۔ جوڈیشل وزڈم جو ہے مثبت نقطہ نظر ہونی چاہیے ۔ اب اگر آپ کے پاس نکاح نامہ نہیں ہے تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ آپ نے اس کی تائید میں گواہ پیش کرنے ہیں ۔ اگر بی بی کے پاس نکاح نامہ نہیں اور وہ خلع لینا چاہتی ہے تو اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ۔ اس کا بھائی ، اسکی بہن ، اسکی ماں ، اسکا باپ وہ عدالت میں جاسکتے ہیں کہ جناب ہاں ہماری بیٹی ، ہماری بہن کی شادی، ہماری بھتیجی کی شادی، ہماری بھانجی کی شادی اس شخص کے ساتھ فلاں فلاں تاریخ کو ہوئی تھی ۔ اس شادی سے یہ بچے پیدا ہوئے تھے یا اس شادی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا یہ یہ معاملات ہیں جب وہ بطور گواہ عدالت کو بتا دیں گے کہ ہاں اس کی شادی ہوئی تھی تو عدالت اس چیز کو مانتی ہے اور عدالت یہ کہہ کے آپ کو عدالت سے نہیں نکا ل دے گی کہ آپ کے پاس تو نکاح نامہ ہی نہیں ہے تو میں خلع کی ڈگری کیسے پاس کروں ؟ایک معاملہ یہ آیا کہ بیوی یا بی بی وہ پردہ نشین ہے یا وہ ملک سے باہر ہے یا کسی وجہ سے عدالت نہیں آسکتی ۔ اب وہ خلع لینا چاہتی ہے تو وہ خلع کیسے لے؟ اس کے بارے میں بھی قانون بڑا واضع ہے کہ وہ بذریعہ مختار خاص بھی خلع لے سکتی ہے لیکن اس مختار خاص کے ساتھ قابل اعتماد گواہان قابل بھروسا گواہان بھی پیش ہونگے تب ۔ عدالت اس چیز کو مد نظر رکھتی ہے کہ کوئی عدالت کے ساتھ فراڈ کر کے کسی کی زندگی تباہ نہ کر دے ۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے مختار خاص کے ذریعے طلاق ہوجاتی ہے خلع کا دعویٰ ڈگری ہوجاتا ہے لیکن اس کے لئے بھی آپ کو قابل اعتماد گواہ چاہیے ۔ اب طلاقِ تفویز کے بارے میں کم و بیش تمام مکاتب و فکر جوہیں وہ ایک صفحہ پے تھوڑا بہت مختلف آپس میں ہے لیکن وہ ایک صفحہ پے ہیں کہ طلاقِ تفویز صرف ایک فرقہ ایک فرقے کے ساتھ کوئی کسی قسم کا اتفاق نہیں ہے وہ ہے فقہ جعفریہ ۔ طلاقِ تفویز کا تصور اس فقہ میں نہیں ہے ۔ اب بیوی نے خلع لے لیا خلع لینے کے بعد وہ شادی نہیں کہیں پے کرتی لیکن خلع کی ڈگری ہونے کے بعداگر ان کی آپس میں صلع ہوجاتی ہے تو وہ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ان کو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا وہ دوبارہ نکاح کریں گے اور کرنے کے بعدوہ بطور میاں بیوی حلال طریقے کے ساتھ وہ رہ سکتے ہیں ۔ اُمید کرتا ہوں کہ میں ان پوائنٹس پے آپ کو ایک نوٹ دے دیا ہے اور آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا ۔
Leave a comment