اگر نابالغ بچوں کا ارتکاب قتل (1)
Admin
11:25 PM | 2020-03-30
انڈر18کرائم یہ تحریران بچوں کے بارے میں ہے جن سے کوئی جرم سرزد ہوجاتا ہے ۔ میں ان بچوں کو ملزم کہنا پسند نہیں کروں گا ذاتی طور پر میں ان کو کہوں گا معصوم ، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ملزم نہیں کہوں گا ملز م کہنا نہیں بنتا کیونکہ بچوں کی ذہنی نشوو نما ہورہی ہوتی ہے اگر وہ بیچارہ غلط صحبت میں چلا گیا ہے تو معاشرے کا اور ریاست کافرض ہے کہ اس کو اچھی صحبت دے۔ اگر اس کے ماں باپ جرائم پیشہ ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ اس بچے کی حفاظت کرے اس بچے کو ایسا ماحول دے کہ جس میں ذہنی پرورش مثبت طریقے میں ہو نہ کہ منفی طریقے میں۔بچے اگر جرم کرتے ہیں تو جو وینئیلجسٹس سسٹم ا
ٓرڈیننس 2000 ان کو ڈیل کرتا ہے اب قانون کے مطابق بچہ کہتے ہیں کہ جس کی عمر اٹھارہ سال نہ ہوئی ہو۔ پورسٹل انسٹیٹیوٹ ایسا انسٹیٹیوٹ یا ایسی حوالات یا ایسی حراستگاہ ہوتی ہے جس میں اُن بچوں کو جنھوں نے کوئی جرم سرزد کیا ہے ، ہوتا ہے رکھا جاتا ہے اور جہاں پر ان کی فلاح کے ، ان کی ذہنی افسودگی کے معاملات دیکھتے ہوئے ان کی ذہنی پرورش مثبت طریقے میں کی جاتی ہے اور ان بچوں کا احساس دیکھا جاتا ہے کہ ان کا احساس ، جرائم کی طرف جارہا ہے یا مثبت کی طرف جارہا ہے۔یہ پورسٹل انسٹیٹیوٹ کی ذمہ داریاں ہیں۔ اب جو میں پروہبیشن ڈیل کرتی ہے پروہبیشن کا مطلب ایسی مدت جس میں اس بچے کی اصلاح کی جاسکے ۔ 1960کے نفاست آرڈیننس کی پروہبیشن اس کو ڈیل کرتا ہے۔ اب اگر کسی بچے سے جرم سرزد ہوگیا ہے ۔ بچے کو حالات جرم کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، بچے سے حالات جرم کرواتے ہیں ، بچے سے ماحول جرم کرواتا ہے اور ہماری بطور بڑے یہ ذمہ داری ہے کہ بچے کی پرورش اس نہج پر کی جائے کہ وہ جرائم کی طرف نا صرف جانے سے منہ موڑ لے بلکہ ان جرائم کا ادراک رکھے مثبت احساس میں کہ یہ کام کرنا غلط ہے۔ اب اگر خُدا نہ خواستہ کسی بچے سے کوئی جرم سر زد ہوجاتا ہے تو ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے کہ اسکو قانونی امداد فراہم کرے۔ یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ اس کو وکیل مہیا کرے اور وکیل وہ ہونا چاہیے جس کی وکالت کم از کم پانچ سال ہوگئی ہو۔ پانچ سال سے کم وکالت والا وکیل نہیں دیا جائے گا نہیں تو وہ نیم حکیم ہوگا اول تو وہ میں کہتا ہوں دس سال پلس والا دینا چاہیے تاکہ وہ بالکل وضاحت کے ساتھ اس عمل سے گزرے ۔ اب تیسرا عنصر آگیا کہ بچے کی عمر کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ کہ یہ بچہ اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہے یہ کیسے عدالت تعین کرے گی؟ 1۔ پیدائش کا سرٹیفکیٹ جسے جنم پرچی کہا جاتا ہے جسے پنجابی میں جمن پرچی کہا جاتا ہے۔ 2۔ ب فارم 3۔ سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ 4۔ میڈیکل ٹیسٹ 1۔ اب سب سے پہلے جو پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہے جنم پرچی ہے ۔ اس پر عدالت غور کرے گی اگر تو وہ وقت میں یعنی کے ایک بچہ ہے سولہ سال کا ۔ سوالہ سال پہلے ہی اس کا اندراج ہوا ہے کہ یہ اس دن پیدا ہوا ہے یا بارہ سال کا ہے تو بارہ سال پہلے ہی ریکارڈ میں اندراج ہوا ہے کہ یہ اس دن پیدا ہوا ہے تو وہ جنم پرچی وہ پیدائش کا سرٹیفکیٹ وہ جمن پرچی جو ہے وہ پوری صداقت رکھے گی لیکن اگر کورٹ کے سامنے ساتھ ایسی دستاویز پیش کردی جاتی ہے جنم پرچی ، جمن پرچی یا پیدائش کا سرٹیفکیٹ کی شکل میں کہ جس کا اندراج اس وقوعے کے ہونے کے بعد کروایا گیا ہو تو پھر عدالت اس کو نہیں مانے گی۔ 2۔دوسرا مرحلہ آگیا ب فارم ۔ اب ب فارم میں بھی یہی ڈبل ٹیسٹ ہوگا کہ یہ ب فارم بنا کب؟ اگر تو ب فارم بنا ہے پیدائش کے نارمل عرصے کے دوران وہ نارمل عرصہ جو ہے وہ تین سے چار سال تک ہوتا ہے اس کے بعد وہ نارمل عرصے میں نہیں گنا جاتا۔ 3۔ اب ب فارم کے بعد پھر سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ اب سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ میں جو آپ پیدائش کی تاریخ لکھواتے ہیں اس کو تنازعہ کیا جاسکتا ہے سال آگے سال پیچھے۔ اگر اس کی بنتی ہے ساڑھے سترہ سال تو سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ کو غور نہیں کیا جائے گا۔پھر 4۔ میڈیکل ٹیسٹ عدالت جب ان چیزوں میں شک آجائے گا کہ پیدائش کی سرٹیفکیٹ ، ب فارم ، سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ٹھیک نہیں ، عدالت واضح طور پر وضاحت کرنے کے قابل نہیں ہوگی کہ بچے کی عمر کیا ہے؟ تو پھر اسکا میڈیکل ٹیسٹ ہوگا اسکو کہتے ہیں اوسفیکیشن ٹیسٹ ، اوسفیکیشن ٹیسٹ میں پھر اس کی عمر کا تعین کیا جائے گا۔ اب اوسفیکیشن ٹیسٹ میں بھی ایک عمر رکھی ہے کہ ایک سال کی تصدیق ہوسکتی ہے ۔ ایک سال زائد بھی ہوسکتا ہے ایک سال کم بھی ہو سکتا ہے لیکن کم کو مانا جائے گا۔ اب اوسفیکیشن ٹیسٹ میں اس بچے کی عمر آجاتی ہے کہ وہ اٹھارہ سال سے کم ہے تو عدالت ڈیوٹی بانڈ ہوگی کہ اسکو جو وینئیلغور کرے۔ یہ سارا کام چالان جمع ہونے کے بعد ایک ایف آئی آر ہوئی ۔ ایف آئی آر ہونے کے بعد بچہ گرفتار ہوا۔ گرفتار ہونے کے بعد چالان بنا۔ چالان بننے کے بعد اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت میں پیش کرنے کے بعد عدالت نے اسکی وضاحت کی۔ وضاحت کرنے کے بعد اس کو جو وینئیل ڈیکلئر کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے کے ساتھ دو بڑے بھی ہیں قانون کہتا ہے چالان ان کا اکٹھا ہی جمع ہونا ہے بچے کا اور بڑوں کا چالان اکٹھا ہی پیش ہونا ہے۔ پیش ہونے کے بعد عدالت جو وینئیل ، ڈیکلئر کرنے کے بعد اس بچے کا مقدمہ ان بڑے لوگوں سے علیحدہ کردے گی ۔قانونی کہتا ہے جوو ینئیل بچےکو کہتے ہیں جوو ینئیل کا ٹرائل ، جوو ینئیل کے مقدمے کی سماعت بالغ ملزموں کے ساتھ نہیں ہوگی اسکی علیحدہ ہوگی۔ اب جوو ینئیل کورٹ جب بنے گی تو اس وقت جس دن اس کا ٹرائل ہوگا صرفجوو ینئیل کا ہوگا کوئی اور ٹرائل نہیں ہوگا۔ اس کا متمائے نظر کیا ہے؟ اس کا متمائے نظر یہ ہے کہ بچہ معصوم پر غور کیا جاتا ہے۔ میں نے آپ سے کہا معصوم قانون توڑنے والا اگر معصومیت میں اس سے جرم سرزد ہوچکا ہے تو پھر اس کو پبلک نہ کیا جائے گا۔ اس کے مقدمے کی کاروائی پبلک نہیں کی جائے گی۔ کسی میڈیا کوخواہ وہ پرنٹ ہو، الیکٹرانک ہو، سوشل ہو۔ اس کورٹ کی کوئی کاروائی جو جوو ینئیل سسٹم کے تحت چل رہی ہے وہ پبلک نہیں ہو گی۔ جب اس کا ٹرائل چل رہا ہوگا تو غیر متعلقہ شخص اس کورٹ روم میں نہیں ہوگا۔ اب واپس اپنے نقطے پر آتے ہیں جب اس بچے کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پولیس کے اوپر کیا ذمہ داریاں ہیں؟ سیکشن 10 جو وینئیل جسٹس سسٹم 2000بچے کو جونہی پولیس گرفتار کرے گی تو سب سے پہلے اس کے سرپرست کو مطلع کرے گی ۔ اس کا سرپرست اس کا باپ بھی ہوسکتا ہے ،اس کی ماں بھی ہوسکتی ہے ، اسکا سرپرست وہ بھی ہوسکتا ہے جسے کورٹ نے مقرر کیا ہے۔ فوری طورپر اس کو اطلاع کرے گی کہ اس بچے نے یہ جرم کیا یہ ہماری حراست میں ہے اور اس کو مطلع کرے گی کہ فلاں وقت کو، فلاں تاریخ کو، فلاں عدالت میں اس کو پیش کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی پروہبیشن آفیسر کو بھی وارن کرے گی پولیس کہ بھئی اس بچے کے بارے میں اس مدت تک جب تک عدالت میں اس کو پیش کیا جانا ہے تمام معلومات اکٹھی کرلو عدالت میں پیش کی جائیں گی اور وہ پروہبیشن آفیسر ڈیوٹی بانڈ ہوگا کہ وہ تمام معلومات عدالت میں پیش کرے کہ یہ بچہ کہاں کا رہنے والا ہے؟، یہ بچے کی عمر کیا ہے؟، یہ بچہ کرتا کیا ہے؟ ،اس بچے کے والدین کیا کرتے ہیں؟، اس فیملی کی رجحانات کیا ہیں؟
Leave a comment