حق مہر کا غلط مطالبہ
Admin
12:52 AM | 2020-03-30
سوال : ایک بیوی نے اپنے شوہر پر دعویٰ دائر کیا ہے کہ مجھے طلاق دو اور میرا حق مہر ایک گھر ، سامان جہیز جو کہ ڈیڑھ کروڑ اور نان نفقہ پچیس ہزار روپے ادا کیا جائے۔ بتائیں میں کیا کروں؟ جواب: میں اپنے تجربے کے تحت آپ کو بتا رہا ہوں اس پر غور کریں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ آپ ایک قابل وکیل مقر ر کریں ، آپ نے اپنے مقدمے سے متعلق ہر بات اپنے وکیل کو لکھوانی ہے۔ اچھا وکیل وہ ہے کہ آپ بولتے جائیں گے وہ لکھتا جائے گا کیونکہ بے شمار مقدمات ہوتے ہیں ، جب وہ آپ کی ڈرافٹنگ نکالتا ہے تو آپ کا سارا امیج سامنے آجاتا ہے، بیوی نے مقد مہ کیا کہ مجھے شوہر کے ظالمانہ روئی
ے کی بنیادپر طلاق دی جائے ۔ حق مہر میں مجھے گھر لکھ کر دیا گیا تھا وہ دیا جائے ، سامان جہیز کی ایک لمبی چوڑی ڈیڑھ کروڑ روپے کی لسٹ دے دی گئی، نان نفقے کے لئے اس نے پچیس ہزار روپے ماہانہ طلب کرلیا۔ سامان جہیز ڈیڑھ کروڑ کا ، یہ دعویٰ ہوا شوہر کے خلاف شوہر میرے پاس آگیا اب میں نے ہر چیز پوچھی وہ کہہ رہا ہے کہ ہم کسی کی ایک سوئی بھی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے ہم واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ڈیڑھ کروڑ کا سامان جہیز بالکل جھوٹ ہے ۔ اب جواہم پوائنٹ تھا اس میں وہ یہ تھا کہ عدالت کو اس ٹرانس سے باہر لانا محنت طلب ہے کہ یہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی سامان جہیز کی لسٹ غلط ہے جبکہ یہ سامان جہیز دو ڈھائی لاکھ روپے کا ہے۔ اب بندہ ڈیڑھ کروڑ مانگتا ہے کہ کتنا نیچے آئے گا پچاس لاکھ دے دے گا، چالیس لاکھ دے دیگا۔ اب اصل صورت حال یہ تھی کہ وہ سامان جہیز دو ڈھائی، تین لاکھ روپے کا تھا۔ اہم جو فوکس یہ تھا کہ ڈیڑھ کروڑ سے نیچے کیسے لائیں۔ ڈیڑھ کروڑ عدالت کی سوچ سے باہر کیسے نکالیں؟ یہ بالکل بے بنیاد ہے اسکے لئے پورا ایک پلاٹ بنانا پڑنا تھا اس کے لئے مجھے بے شمار ملاقاتیں کرنا پڑیں سائل کو بلا کر ابتدائی مرحلے میں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی جواب دعویٰ بھی جانا ہے کیا کریں؟میں نے پوچھا کہ بھائی آپ کا گھر کتنے رقبے پر مہیت ہے اس نے کہا چار مرلے پوچھا کہ کون کون رہتا ہے کہتا میں رہتا ہوں ، میرے دو بھائی رہتے ہیں ، میرے والدین رہتے ہیں۔ دونوں بھائی شادی شدہ ہیں ، گرائونڈ فلور پر ایک کمرہ میں میں رہتا تھا اس کے علاوہ کچن سانجھا ہے دوسری منزل اور تیسری منزل پر دونوں بھائی رہتے ہیں نیچے میں ایک کمرے میں رہتا ہوں ۔ میں نے پوچھا کہ لڑکی والوں کا گھر کتنے مرلے کا ہے انھوں نے کہا جی ان کا بھی چار پانچ مرلے کا ہے میں نے کہا ادھر کون کون رہتا ہے ؟ کہا اس کے دو شادی شدہ بھائی رہتے ہیں ایک غیر شادی شدہ بھائی رہتا ہے ،والدین رہتے ہیں ، ان کا ایک چچا اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔ میں نے کہا حلفاََ قرآن اپنی لسٹ بنا کر لائو۔ وہ ایک سامان جہیز کی ایک لسٹ جو نارمل ایک باپ ایک والدین جو اپنی بیٹی کو دیتے ہیں ۔ میں نے وہ سامان جہیز کی فہرست جواب دعوے کے ساتھ لگائی اور اپنا جواب دعویٰ تیار کیا اس میں ہر نقطے کو تصدیق کیا۔ ایک بات جو میں نیچے ٹرائل کورٹ کو سمجھانے میں مدد کرنے میں ناکام رہا جو میری بات ہائی کورٹ میں آکر مانی گئی کہ نکاح نامے میں جس گھر کا ذکر کیا گیا ہے وہ گھر صرف اس کے رہنے کے حق کی حد تک کیا گیا ہے کہ جب تک تم نکاح میں رہو گی تو اس گھر میں رہنے کا حق رکھتی ہو لیکن ٹرائل کورٹ نے اور ایپلٹ کورٹ نے اس کو یہ تصور کیا گیا کہ نہیں یہ گھر اس کو دے دیا گیا ہے ۔ وہ ہائی کورٹ نے بھی مانا اور ماننے کے بعد وہ سپریم کورٹ نے بھی مانا ، سپریم کورٹ نے اس کو برقرار کیا سپریم کورٹ نے باقاعدہ اس پر بحث کی۔ اب جب عدالت کے سامنے میں نے یہ رکھا ایک پانچ مرلے کے گھر میں رہنے والا بندہ اپنی بیٹی کو ڈیڑھ کڑوڑ روپے کا سامان جہیز دے کر ایسے گھر میں بھیج رہاہے جو پانچ مرلے پر ہے ۔ پانچ مرلے کے ایسے گھر میں ڈیڑھ کڑوڑ کا سامان جہیز دے کر بھیج رہا ہے جہاں پہلے ہی دو شادی شدہ بیٹے رہتے ہیں اور ایک والدین رہتے ہیں ایک یہ خود ۔ ٹرائل کورٹ نے یہ مانا پہلے قدم پر میں ان کو اس سے باہر لے کر آیا یہ بات دوران شہادت مداعیہ نے بھی مانی اور مدا عیہ نے مانے کے بعد کہ ہاں ہم پانچ مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور اتنے ہی نفوس رہتے ہیں ہاں یہ تین سے چار مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور اتنے ہی نفوس رہتے ہیں تو پھر وہ ڈیڑھ کڑوڑ کا جو سامان جہیز تھا وہ کہا ں گیا؟ یہ بھی کہتی ہے کہ مجھے رہنے کو ایک کمرہ ملا تھا ، یہ بھی کہتی ہے کہ وہاں سٹور روم کوئی نہیں تھا، یہ بھی کہتی ہے وہاں پے ڈرائنگ روم کوئی نہیں تھا۔ جس گھر کا ڈرائنگ روم نہیں ہے جس گھر کا سٹور روم نہیں ہے ڈیڑھ کڑوڑ کا سامان جہیز وہاں پے کیسے آسکتا ہے؟ اب بات یہاں پے بھی نہیں رکی ایک تو میں نے یہ سیٹ کردیا پھر میں نے جو منسوخی کی کاروائی ہوتی ہیں اس میں ایک درخواست دی کہ میرا سائل حلفاََ کہنے کے لئے تیار ہے جو سامان جہیز کی فہرست اس نے لگائی ہے ساتھ پیش کی ہے عدالت میں اس کے علاوہ اسکے پاس سوئی بھی نہیں یا میرا حلف لے لیا جائے یا یہ بی بی آکر حلف دے دے کہ نہیں یہ سامان جہیز کی لسٹ جھوٹی ہے جو میر ی لسٹ ہے وہ سچی ہے ۔ جب یہ درخواست گئی وہ بھا گ گئے انھوں نے کہا جی ہمارا میرٹ پر فیصلہ کریں۔ ٹرائل کورٹ نے سامان جہیز کی حد تک کہہ دیا کہ جو فہرست شوہر نے دی وہ درست ہے لیکن حق مہر اس نے گھر جو اس کے نام کیا ہے وہ دے۔ اب اس گھر کا کوئی وجود نہیں ہے میرا سائل کسی ایک انچ کا مالک نہیں تھا۔ وہ جس گھر کا ذکر تھا وہ تھا میرے باپ کا اور اس میں سارا کنبہ رہتا تھا۔ہم ایپلٹ کورٹ میں گئے ، ایپلٹ کورٹ نے ہماری بات کو مانا۔ پھر ایک اہم موڑ آیا جو عدالتوں میں ہوتا ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار ہوگیا۔ ہائی کورٹ میں گئے تو پھر ہائی کورٹ نے یہ مانا اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس پر بحث کی کہ نکاح نامے میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ یہ گھر بطور گفٹ ملے گا یا یہ گھر بطور حق مہر ملے گا۔ یہ سارا مقدمہ بتانے کا مقصد ہے کہ آپ کو باخبر ہونا چاہیے، آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ کا کیس کیا ہے؟ اگر ایک کیس کیا جاتا ہے اور اس میں لاکھوں کڑوڑوں روپے مانگ لیا جاتا ہے تو ایک دم ہاتھ پائوں نہیں پھولنے چاہیے۔ آپ کو اپنے حقائق کا بھی پتا ہونا چاہیے۔
Leave a comment