سائبر کرائمز(2)
Admin
11:38 AM | 2020-01-30
اب یہ جو ہمارے معاشرے میں جس پے فوکس کیا جارہا ہے جو سامنا کر رہے ہیں لوگ اب وہ سیکشن ہے جس پر زیادہ تر مقدمات ہورہے ہیں وہ ہے قدرتی شخص کے وقار کے خلاف کاروائیوں میں کسی کی عزت پر حملہ کرنافزیکل نہیں یہ ذہن میں رکھئے کہ کسی کی عزت پے حملہ کرنا کا جب رکھنا ہے توالیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کا صوبائی کو ذہن میں رکھنا ہے آپ نے سائبر کرائمز کوذہن میں رکھنا ہے ۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی کی عزت کو جب آپ اچھالیں گے نیٹ میں تو اس کی بھی سزا ہے تین سال تک قید، دس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں اب یہ واضع کرنے کی ضرورت نہیں ایک ایک کر کے میں اگلے لیکچر میں وضاحت بھی کر
وں گا ۔ فل حال میں آپ کو آگاہی دے رہا ہوں کہ یہ قوانین موجود ہیں اگر آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے تو آرام کی یقین دہانی کہ اس ایکٹ کے تحت اس کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں ۔ ہلکا سا بتا دیتا ہوں کہ قدرتی شخص کا وقار لڑکی تھی لڑکی کے نام کا اکاءونٹ بنایا اس پے اسی لڑکی کی تصویر لگا دی اور اس اکاءونٹ پے فحاشی پھیلانی شروع کردی ۔ یہ تاثر دینے کیلئے کہ یہ لڑکی اخلاقیات سے مبرا ہے، یہ لڑکی آپ کی رسائی میں ہے، یہ لڑکی کال گرل ہے ، یہ لڑکی جو ہے وہ جسم فروش ہے ۔ اگر تو ایسا کوئی سلسلہ کار چلتا ہے اور اس لڑکی کو پتہ چل جاتا ہے کہ مجھے تو ساری دنیا نے اس نظر سے دیکھ لیا اور اس نے بڑی زیادتی کی تو پھر اس جرم کے تحت اس کے او پر مقدمہ درج ہوسکتا ہے جس نے یہ کیا ۔ پھر نابالغ کا آگیاکہ بچو ں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوتا ہے ۔ بچوں کے ساتھ بدفعلی بھی کی جاتی ہے اور ویڈیوز بنا کر اوپر اپ لوڈ کردی جاتی ہیں پھر اس کی درجہ بندی کی گئی ہے کہ کیا کیا کس کس حد تک جانا ہے اور آخر میں جو ہے وہ اس کی سزا بڑھتے بڑھتے دس سال تک چلی جاتی ہے ۔ پھربچوں کی فحش نگاری آگئی کہ اگربچوں کی فحش نگاری کی جائے توپھر اس کی سزا جو ہے سات سال ہے ۔ بدنیتی پر مبنی کوڈ ہے، سائبر سلوک ہے، خواب دیکھتا ہے، سپوننگ ہے ۔ اب تفتیش کا آگے آجاتا ہے ۔ تفتیش کرنے کی طاقت ہے کہ مجاز شخص ہی جو تفتیش کرئے گا ۔ جس کو بھی مقرر کرئے گی گورنمنٹ ٹائم ٹو ٹائم ۔ یہ پھر ہر ایک کے واجبات کی رسائی کی جائے گی ۔ ایک گروپ بھی یہ سارا کچھ کر سکتا ہے پھر گروپ میں اسکی اقسام کی جائے گی کہ اس کاکس کا کیا کیا وہ محفوظ طریقہ ہوگا اور میں نے یہ جو پڑھا ہے یہ ایکٹ جہاں تک کیونکہ ابھی یہ اتنا اچھی طرح سے جومقدمے کے قوانین ابھی پیدا نہیں ہوئے کیونکہ معاملات اتنے رپورٹ نہیں ہورہے ۔ ان میں تمام جرائمز جو ہے وہ ناقابل دست اندازی ہیں اور قابل صلح ہے ۔ تین سیکشن میں جو جرائمز دیئے گئے ہیں وہ نہیں ہے سیکشن21 اور 22 ، سیکشن10 اب تھوڑا سا میں اس کے بارے میں جنرل میں آپ کو بتادوں معلومات کے حوالے سے ایکٹ میں نے آپ کو بتا دیا ۔ خُدارا اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی جرم ہوتا ہے جس کے تحت یہ ایکٹ آپ کو حل فراہم کرتا ہے تو آپ اس کو الگ مت کریں یہ سوچ کر کہ چلیں میرے ڈیٹا تک رسائی کرلیا الگ کردیں یہ سوچ کے کہ مزید بدنامی ہوگی معاملے کو ختم کریں چھوڑ دیں میں یہ اسلئے نہیں کہہ رہاکہ آپ الجھنوں کا شکار ہونگے ۔ میں اسلئے کہہ رہا ہوں کہ اس گندے باب کواگر آج ہم نے بندنہ کیاتو وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھیانک شکل اختیار کر جائے گا ۔ لوگوں کی عزتیں کہتے ہوتے تھے کہ چوک میں نیلام ہورہی ہیں پھر لوگوں کی عزتیں گلوبل لیول پے نیلام ہوگی ۔ میری بیٹی کو صرف میرے گھر والے دیکھتے تھے اگر ان جرائم کو نہ روکا گیا تو میری بیٹی کو پوری دنیا دیکھے گی ۔ حساس نوعیت کے جو ڈیٹاز ہیں شائستگی کا سوال ہے، بچوں کی فحش نگاری کا سوال ہے ۔ اگر اجتمائی طورپر ہم نے کدگن نہ لگایا ۔ ہم نے اس کے خلاف منہوسل قوم ایکشن نہ لیا تو یقین جانیئے کہ ہم نے بھی اس کا خمیازہ بھگتنا ہے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں نے بھی اس کا خمیازہ بھگتنا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انٹرنیٹ ساری دنیا میں مہنگا ہے پاکستان میں سستا ہے لیکن انٹر نیٹ آنے سے پہلے اخلاقیات کادرس دینے والا کوئی نہیں تھاقواعد و ضوابط کوئی نہیں بنے ۔ انٹرنیٹ ہمارے پاکستان میں 1990 کا آیا ہوا ہے او رمزیداری کی بات یہ ہے کہ 1990 کا وہ آیا ہوا ہے اور یہ ایکٹ2016 میں بن رہا ہے یہ 1990 میں بننا چاہیے تھا ۔ نوے کی دہائی میں بننا چاہیے تھا2016 میں بنا ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ اگر ہم نے ایکشن لیا، ہم اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوگئے تو اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے ۔ اُمید کرتا ہوں اور ایک اور بات عدالتیں اس میں بہت سخت ایکشن لے رہی ہیں ۔ عدالتیں اس میں الگ نہیں کررہیں جہاں پے ثبوت آجاتے ہے وہاں پے عدالتیں سینہ سپروہوکر کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ اُمید کرتا ہوں کہ میں نے سائبر کرائمز پے آپ کواپنی طرف سے کچھ معلومات دیں ۔
Leave a comment