اختیارِ سماعت (2)
Admin
08:49 AM | 2020-02-11
اب معاملہ کیا ہے؟ کہ اے نے بی کو ادھار رقم دی اس نے ادھار رقم کے عوض چیک دیئے اور وہ چیک ڈس اونر ہوگئے وہ بندہ پاکستا ن بھاگ کے آگیا اب وہ شخص جب آیا تو اس کی جو تھی ذہنی صورتحال وہ بڑی اُمید لے کے آیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس معاملے کو لیں گے ایف آئی اے آگ لگا دے گی یہ سارا کچھ ہوجائے گا بھئی بنیادی چیز کیا ہے؟نیادی چیز ہے کہ آپ نے ایک بندے کو پیسے دیئے اور اس نے واپس نہیں کئے ۔ کیا ایف آئی اے کے اختیار سماعت میں یہ معاملا آتا ہے؟اس سوال کا جواب ہے نہیں کیا یہ معاملا پاکستان کی کسی عدالت کی اختیارِ سماعت میں آتا ہے؟اس سوال کا جواب ہے نہیں ۔ آپ
کے پا س فورم سعودیہ میں ہی ہے آپ کو اگر پاکستان ایمبیسی نے کوئی خط لکھ کر دے دیا ہے وہ خط ایک ردی کی ٹوکری تو بن سکتا ہے آپکی شکایت کا ازالہ نہیں کرسکتا ہاں ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جو ہیں وہ اس کا سو مٹولیں کہ ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی کے ساتھ ایک بندہ فراڈ کرکے بھاگ کر ادھر آگیاہے اس کو پکڑو اسکی پراپرٹی بکواءو اس کو پیسے واپس دلواءو ان کتابوں کے مطابق وہ قانون کے تحت تو نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے لیکن اگر ان کتابوں کی بابت آپ جائیں جو قوانین راءج ہیں اس پاکستان میں تو اس کے مطابق آپ کی شکایت کا ازالہ جو ہے وہ سعودیہ میں ہی ہے ۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ واپس سعودیہ جائیں واپس سعودیہ جانے کے بعد آپ اپنے اس کیس کو پروسوں کریں جو آپ نے فائل کیا ہوا ہے اس کی ایک حتمی جو ہے نہ فیصلہ لیں وہ حتمی فیصلہ لے کے پاکستان آئیں اس فیصلے کی بنیاد پے اب وہ حتمی فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟اس میں آپ اپنے وکیل صاحب کواُدھر جوآپ کے ہیں ان کو آپ نے کیا اصرار کرنا ہے ؟کہ کن کن نقطے پے آپ کو فیصلہ ملنا چاہیے؟ 1- پہلا مرحلہ پہلا پیراگراف کہ اس بندے کو مسلسل بلایا جارہا ہے وہ نہیں آرہا ۔ پاکستان چلا گیا ہے پاکستان کا اڈریس دیا ہے وہ نہیں آرہا ۔ جان بوجھ کے وہ ٹال رہا ہے اس کے خلاف سابقہ پارٹی کاروائی ہو ۔ 2- دوسرا مرحلہ آپ کی تمام ثبوت کو وہ اپنے فیصلے کا حصہ بنائے کورٹ کہ آپ نے یہ پیسے دیئے ہیں آپ کو ان پیسوں کے عوض یہ چیک دیئے گئے یہ عدالت کو پیش کئے گئے یہ چیک ڈس اونرہوگئے ۔ میری یہ رقم اس کے اوپر واجب الا ادا ہے میرے پاس یہ ثبوت موجود ہیں دینے کی بھی پیسے اور واپس کرنے کے لئے اس کا چیک دینا یہ اس فیصلے کا حصہ ہونا چاہیے اس کے بعد فیصلے کا حصہ ہونا چاہیے کہ اس کو ساراسمجھا گیا ہے اس کا موقف درست ثابت ہوتا ہے پھر وہ فیصلہ دیں تو اس فیصلے کی آپ انگلش میں ترجمہ کروا کے ایمبیسی سے تصدیق کروا کے وہاں کے نوٹری پبلک سے تصدیق کروا کے آپ وہ پاکستان میں لے کے آئیں ۔ پاکستان میں اس کی بنیاد پے جہاں پے مدعلیہ رہتا ہے وہاں پے اس کا دعویٰ دائر ہوگا پھر وہ دعویٰ جو ہے وہ ڈگری ہوگا ۔ اب میں نے آپکوبتادیا فیصلے میں کیا کیا ہوناچاہیے؟ اب دوسری بات جو اہم ہے آپ نے وکیل صاحب سے کہنا ہے کہ جس کورٹ میں میں نے دعویٰ دائر کیا ہے وہ اختیار سماعت میں بھی آتا ہے کہ نہیں کیا اس عدالت کو اختیارِ سماعت ہے؟ کہ وہ کرئے ۔ اب وہ فیصلہ جب پاکستان میں آئے گا تو پاکستان میں جب ایک دعویٰ دائر کیا جائے گا تو کورٹ کیا کیا دیکھے گی؟ سیکشن 13 کے مطابق سیکشن 13 کی سی پی سی 1- سب سے پہلے وہ اختیار سماعت کا سوال اُٹھائے گی کیا اس عدالت کو اختیار سماعت تھی؟ 2- دوسرا سوال کہ یہ دیکھے گی کہ کیا یہ اختیار سماعت میرٹس پے ہے یا نہیں اگر یہ فیصلہ میرٹس پے نہیں ہے تو پھر بھی اس کو نہیں مانے گی اس کو ڈسٹ بین میں پھینک دے گی ۔ 3- تیسری چیز کہ عدالت کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ اگر اس میں مقدمے کے حقائق پر بات چیت کی گئی ہے لیکن ان مقدمے کے حقائق پر بات چیت کرنے کے بعدایک غلط نظریہ لیا گیا ہے جو قانون کی دنیا میں نہیں مانا جاسکتا یا یہاں تک کہ ایک عام آدمی ایک عام عقل و فہم رکھنے والا بندہ بھی ان حقائق کی موجودگی میں وہ فیصلہ پاس نہیں کرسکتا تو پھر وہ بھی ڈسٹ بین کا حصہ ہوگی ۔ 4- پھر وہ چوتھے مرحلے پے عدالت یہ دیکھے گی کہ کیا یہ قدرتی انصاف کے فیصلے کے اصول کے خلاف تونہیں ہے اگر ہے تو پھر بھی ڈسٹ بین میں اور اگر نہیں ہے تو پھر اس کو لے گی پھر وہ یہ دیکھے گی کہ کیا یہ فیصلہ فراڈ کے ذریعے تو نہیں حاصل کی گئی اگر کی گئی ہے تو پھر اس کوڈسٹ بین میں پھینک دے گی اگر نہیں کی گئی تو اس پر کاروائی کرئے گی ۔ 5- اور آخر میں وہ دیکھے گی کہ جو دعویدار ہے جس نے وہ فیصلہ اپنے حق میں حاصل کی آیا اس نے کسی پاکستانی قانون کو توڑا تو نہیں اسی تجویزکے حوالے سے اگر توڑا ہے تو پھر بھی ڈسٹ بین ان ساری چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب آپ یہ کام کریں گے تو آپ کوچھوٹ بھی ملے گی ۔ اب یہاں پے پاکستان میں کوئی چیک دیتا ہے قرض کی ادائیگی کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے اب ان کو یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں چیک کا قانون بھی ہے آپ وہاں پے جاکے اس کے خلاف پرچہ کروادیں میں نے کہا بھئی چیک ایشو ہوا ہے سعودیہ میں چیک ڈس اونر ہوا ہے سعودیہ میں آپ نے قرض دیا ہے سعودیہ میں تو پاکستان میں 489 ایف سی پی سی کی اختیار سماعت کیسے آپ طلب کرسکتے ہیں ؟ آپ نہیں طلب کرسکتے آپ کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے آپ کا جو بھی معاملہ ہے وہ حتمی طور پر حل سعودیہ میں ہی ہونا ہے ۔ سعودیہ نے ہی اس کو حل کرنا ہے جو وہ حل کرئے گی اس کو پھرآپ پاکستان لے کر آئیں گے تو پھر پاکستان میں اس پر عمل درآمد ہوگا ۔ غیر ملکی فیصلے کی عمل درآمد کے لئے سوٹ بھرنے کے راستے سے ہوگا ۔ اب یہ تو میں نے آپ کو بتا دیا کہ بیرون ملک اور ادھراب یہ مسئلہ بھی سی پی سی میں حل کردیا گیا ہے کہ ایک بندہ مر اہے فوت ہوا ہے اس کی پراپرٹی لاہور میں بھی ہے اسکی پراپرٹی پنڈی میں بھی ہے، اس کی پراپرٹی وہاڑی میں بھی ہے ، اسکی پراپرٹی گوجرانوالہ میں بھی ہے ۔ اب اس کواعلامیہ چاہیے ان پراپرٹیز کو اپنے نام کروانے کے لئے اب قانون نے بڑی آسانی پیدا کردی قانون نے کہا کہ آپ نے کسی ایک شہر میں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ ، وہاڑی چاروں شہروں میں آپ کی پراپرٹیز ہیں کسی ایک شہر میں آپ یہ سوٹ فائل کردیں ان پراپرٹیز کا ذکر کرکے وہ جو ڈگر ی ہوگی اگرلاہور سے لی ہے تو گوجرانوالہ، وہاڑی، پنڈی میں عمل درآمدہوگی ۔ اگر گوجرانوالہ سے لی ہے تو لاہور، وہاڑی ، پنڈی میں عمل درآمد ہوگی اس میں کوئی کدگن نہیں ہے بار بارسوٹ فائل کرنے کی آپ کو قعتا کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ نے صرف قانونی وارث ہونا ہے مرنے والے کی جتنی پراپرٹیز ہیں وہ اس کے نام ٹرانسفرہوجائیں گی ۔ اب یہ کوئی اتنا پیچیدہ معاملہ نہیں ہے ۔ میرے وکلاء بھائی ہیں میری ہی برادری کے ہیں اچھے بھی ہوتے ہیں بُرے بھی ہوتے ہیں بلیک میلر بھی ہوتے ہیں خُدا ترس بھی ہوتے ہیں سارے ہی ہیں اوریہ پوری سوساءٹی کا حال ہے یہ صرف قانون دان کا حال نہیں ہے کہ میرے پیشے میں ایسا ہے ہر پیشے میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں ۔ میں یہ آگاہی مہم اس لئے چلا رہا ہوں کہ کم از کم آپ کو اپنی بنیاد کا پتا لگ جائے ۔ اب آپ لاہور میں رہتے ہیں پراپرٹی ہے گوجرانوالہ کی مد علیہ رہتا ہے جس کے خلاف آپ نے کیس فائل کرنا ہے وہ گوجرانوالہ میں آپ کو یہ پتا ہونا چاہیے بنیادی چیز اگر آپ لاہور میں جاتے ہیں کسی وکیل کے پاس کہ میرا یہ جھگڑا ہے تو آپ کو کم ازکم یہ پتا ہو کہ لاہور کی اختیار سماعت ہے یا نہیں اگر پراپرٹی بھی گوجرانوالہ میں ہے مدعلیہ بھی گوجرانوالہ میں ہے صرف آپ لاہور میں ہے تو لاہور کی عدالت کو کوئی اختیار سماعت نہیں ہے ۔ آپ کا پیسہ بھی ضائع ہوگا آپ کا ٹائم بھی ضائع ہوگا اور آپ کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں آئے گا ۔ یہ بہت بڑی پریشانی ہے قانونی چارہ جوئی کے لئے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عام آدمی ہیں ہم تو نابلد ہیں ہ میں تو قانون کا نہیں پتا وہ قانون کی مدد لینے وکیل کے پاس جاتے ہیں وکیل صاحب کسی بھی نوعیت کے مل سکتے ہیں اچھے ہوں گے تو وہ آپ کوکہہ دیں گے کہ اِدھر نہیں ہونا آپ اس شہر میں جائیں اس شہر میں جا کر کریں وہاں پے دائر ہونا ہے یہاں پے نہیں ہونا لیکن اگر آپ کو خود پتا ہوگا تو آپ لاہور کے کسی وکیل کے پاس جائیں گے ہی نہیں ۔ آپ سیدھا جائیں گے گوجرانوالہ وہاں پے وکیل کریں گے ۔ وکیل کرنے کے بعد آپ اپنا دعویٰ دائر کریں گے اور اس کولڑیں گے اور اس کو لڑنے کے بعدآپ حق پے ہونگے تو آپ کے حق میں ہوجائے گا آپ حق پے نہیں ہونگے آپ کے خلاف ہوجائے گا ۔ اُمید کرتا ہوں کہ میں نے اختیارِ سماعت جو عدالتوں کو حاصل ہوتا ہے اس کے بارے میں آپ کو مکمل تفصیل دے دی ہے ۔
Leave a comment