چیک کے بارے میں قانونی معلومات
Admin
03:01 AM | 2020-01-25
میں آج آپ کو چیک کے بارے میں بتاءو ں گا کہ 1- چیک کی کیا اہمیت ہے؟ 2- چیک کیسے دیاجاتا ہے؟ 3- چیک ڈس اونر ہوجائے تو کیاطریقہ کار ہیں ؟ 4- کون سے قوانین اسکو ڈیل کرتے ہیں؟ ایک بات آپ ذہن میں رکھ لیں کہ جب بھی کوئی شخص آپ کو چیک دیتا ہے ۔ قرض اتارنے کی خاطر کوئی ذمہ داری تھی وہ پور ی کرنے کے لیے کوئی مال خریدا تھا اس کے لئے یا کوئی بھی ٹرانزیکشن ہوسکتی ہے لیکن جو چیک جاری کررہا ہے وہ ادائیگی کیلئے کر رہا ہے جب وہ شخص آپ کو چیک دیتا ہے تو آپ نے کن چیزوں کا خیال کرنا ہے ایک تو یہ کہ آپ کے نام کا وہ چیک ہو، تاریخ درست لکھی ہو، فگر درست لکھی ہو، ہندسوں میں بھی اور ل
فظوں میں بھی اور سائن آپ نے اپنے سامنے کروائے ہوں ۔ اگر کوئی شخص آپ کو چیک دیتا ہے قرض کی ادائیگی کےلئے تاکہ ذمہ داری پوری ہوسکے اوروہ چیک آپ کیش کرواتے ہیں یا جمع کرواتے ہیں اپنے اکائونٹ میں کیش ہونے کیلئے اور وہ چیک ڈس اونر ہوجاتا ہے اور یہ آپ پے ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ چیک اس نے بدنیتی کی بنیاد پر آپ کی رقم ہڑپ کرنے کیلئے آپ کو دیا تھا آپ کو تسلی دینے کیلئے تو آ پ کے پاس سب سے پہلا اقدام جو لو گ نہیں کرتے ۔ آپ اس کوقانونی نوٹس بھیجوائیں ۔ ایف آئی آر میں آخری لائن لکھ دی جاتی ہے کہ میں نے اس سے رابطہ کیا اس نے پہلے لت و لال سے کام لیا پھر اس نے مجھے دھمکیاں دینا شروع کردی ان چیزوں کو عدالتیں نہیں مانتی ۔ یہ اب روٹین کے فقرے ہیں کہ آج میرا چیک ڈس اونر ہواسا ت دن بعد میں نے اندراج مقدمے کی درخواست دے دی اور اس کے بعد انکوئری ہونے کے بعدپرچہ درج ہوگیایہ چیزیں نہیں جو قانونی طریقہ کار ہے کہ آپ سب سے پہلے اس کو قانونی نوٹس بھجوائیں اس میں وہ وجہ لکھیں جس وجہ سے اس نے آپ کو وہ چیک دیاوہ چیک آپ کو ادائیگی کیلئے دیا اور وہ چیک اس میں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے یہ آپ خود کرسکتے ہیں یہ سادا سی باتیں ہیں مجھے فلاں فلاں تناظر میں جو ہے نہ مجھے ادائیگی کرنی تھی اس تناظر میں آپ نے مجھے فلاں تاریخ کا ، فلاں بینک کا، فلاں چیک نمبر دیاوہ چیک میں نے کیش کروانے کیلئے اپنے اکاءونٹ میں جمع کروایایا میں کیش کروانے کیلئے گیاتو وہ چیک ڈس اونر ہوگیا آپ کے اکائونٹ میں رقم نہیں تھی آپ کا اکاءونٹ ڈارمنٹ تھا آپ کے اکائونٹ میں رقم تھی لیکن آپ نے ادائیگی بندکروائی ہوئی تھی کچھ بھی ہوسکتا ہے معاملا،وجہ ہوتی ہیں دس بارہ ان میں سے کوئی وجہ بھی ہوسکتی ہے ۔ اب جب چیک ڈس اونر ہوگیا تو آپ نے یہ لیگل نوٹس بھجوانا ہے یہ لیگل نوٹس بذریعہ رجسٹرڈ اے ڈی رجسٹری کے ذریعے اور واپسی خط کے ساتھ کہ واپس بھی آئے کہ اس نے وصول کر لیا ہے کہ نہیں کیایا نکاری ہے وہ لیگل نوٹس دینے کے بعدآپ نے اسی لیگل نوٹس کی بنیاد پے آپ نے ایک متن لکھنا ہے ایس ایچ او متعلقہ تھانے کے نام درخواست برائے اندراج مقدمہ اور اس میں یہ ساری کہانی لکھنی ہے کہ یہ یہ چیزیں میں نے دی یا یہ یہ رقم میں نے دی تھی اور اس کے تناظر میں اس نے یہ رقم مجھے واپس کرنی تھی رقم واپسی کیلئے یہ اس نے مجھے چیک دیا ۔ یہ چیک کا نمبر ہے، یہ چیک فلاں بینک کا ہے، یہ چیک فلاں تاریخ کا ہے، یہ چیک فلاں مالیت کا ہے یہ چیک میں نے جب جمع کروایا یا کیش کروانے گیایہ ڈس اونر ہوگیا ۔ ڈس اونر ہونے کے بعد میں نے اس کو لیگل نوٹس بجھوایا ۔ لیگل نوٹس کا اس نے جواب دیا یا نہیں دیاجو بھی صورت حال ہوگی اس کے بعد یہ انکاری ہوگیا انکاری ہونے کے بعد میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ اس کے خلاف کاروائی کی جائے وہ 489ایف پی پی سی کے تحت آپ کا مقدمہ درج ہوجائےگا ۔ اب اس موضوع میں اسی کو جاری کرتے ہوئے میں ایک اورموضوع ہے اس کے بارے میں بھی آپ کو بتا دیتا ہوں ۔ کہ اگر پولیس آپ کا مقدمہ درج رجسٹرڈنہیں کرتی تو آپ پاس کیا طریقہ کار ہے ۔ آپ نے درخواست برائے اندراج مقدمہ متعلقہ تھانے میں دی ایس ایچ او نہیں کاٹ رہا ایف آئی آر آپ کی درج نہیں کر رہا اب ایف آئی آر جب آپ کی درج نہیں ہوتی تو آپ کے پاس طریقہ کار کیاہے ؟سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ ہولڈ کردیا ہے کہ اگر آپ ایس ایچ او کے پاس جاتے ہیں تو آپ کی درخواست پر وہ مقدمہ درج نہیں کرتاتو آپ ہائی اپس پولیس ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے ہائی اپس کے پاس جائیں آپ اس کے ایس پی کے پاس جائیں گے آپ اس کے ایس ایس پی کے پاس جائیں گے کہ آپ کے ڈی آئی جی کے پاس جائیں گے جو بھی معاملا ہوسکتا ہے کہ جناب میں نے یہ اندراج مقدمے کی درخواست دی ہے یہ جرم ملزم نے تسلیم کیا ہے ایس ایچ او اس کے ساتھ ملا ہوا ہے ایس ایچ او جو ہے مقدمہ درج نہیں کررہا ۔ یا ایس ایچ او ملا نہیں ہوا ایس ایچ او اپنی اے آر سی کو سیدھا کرنے کیلئے کہ میرے علاقے میں میرے تنیور کے دوران کم سے کم مقدمات ہوئے ہیں اس پر غور ہوگا اس وجہ سے مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے ۔ اگر ایس پی یا ایس ایس پی یا ڈی آئی جی ایک فورم پر جانا ہے یہ میں نہیں کہہ رہا آپ نے ایس پی کے پاس بھی جانا ہے پھر ایس ایس پی کے پاس بھی جانا ہے پھر ڈی آئی جی کے پاس بھی جانا ہے پھر آئی جی کے پاس بھی نہیں صرف ایک فورم ۔ آپ جب ایس پی یا ایس ایس پی کے پاس درخواست لے کر چلے گئے آپ نے دس سے پندرہ دن بیس دن انتظار کیا اگر اس سے بھی شنوائی نہیں ہوتی تو آپ نے بائی سے بائیس پی سی آرپی سی ضابطہ فوجداری کے تحت وکیل کے ذریعے آپ نے ایک اندرج مقدمے کی ڈاریکشن لینے کیلئے سیشن جج کے پاس ان دفعات کے تحت درخواست دائر کرنی ہے کہ جناب میں نے ایس ایچ او کوبھی درخواست دی یہ اس کا ڈائری نمبر ہے ، میں نے ایس ایس پی کو بھی درخواست دی یا ایس پی یا ڈی آئی جی کو بھی درخواست دی یہ اس کا ڈائری نمبر ہے لیکن میرا یہ مقدمہ درج رجسٹرڈ نہیں کر رہے جبکہ میری درخواست میں قابل دست اندازی جرم بنتا ہے دفاع کا نتیجہ اخز ہورہا ہے ۔ یہ سیشن جج کے پاس ہائی کورٹ نے پاور دی ہوئی ہے جسٹس آف پیس کی ۔ سیشن جج یا اڈیشنل سیشن جج بطور جسٹس آف پیس اس میں پولیس سے تبصرے منگوائے ۔ پولیس کے تبصرے آتے ہیں یا نہیں آتے وہ آپ کو سنے گا آپکی درخواست کو سنے گا آپکی درخواست کو پڑھے گا آپکے شواہد کو دیکھے گا ۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ آپ کا مقدمہ درج رجسٹرڈ ہونا چاہیے تو وہ ڈاریکشن دے دیگا ۔ وہ ڈاریکشن لے کے آپ ایس ایچ او کے پاس جائیں گے ۔ اگر ایس ایچ او پھر بھی پرچہ نہیں دیتا تو پھر اسی عدالت میں آپ کمپلائنس پٹیشن فائل کرینگے جس کو توہیں عدالت کی درخواست عرف عام میں کہتے ہیں لیکن لیگل ٹرمنالوجی میں کمپلائنس پٹیشن کہتے ہیں کہ جج صاحب آپ نے یہ آرڈر پاس کیا اس آرڈرپے عمل درآمد ایس ایچ نہیں کر رہا اس پر عمل درآمد کروائیے ۔ جج اس ایس ایچ او کو طلب کرلے گاطلب کرنے کے بعداس کو باءونڈ کریگا کہ تم پرچہ درج کرو اگر آپ کامقدمہ پھر بھی درج نہیں ہوتاتو آپ ہائی کورٹ میں رٹ فائل کرسکتے ہیں اگر جسٹس آف پیس آپ کو سنتا ہے اور سننے کے بعدآپ سمجھتے ہیں اس کا آرڈر صحیح نہیں اس نے ڈاریکشن نہیں دی پرچہ درج کرنے کیایف آئی آر درج کرنے کی تو آپ اس آرڈر کو بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں رٹ فائل کرکہ رٹ پٹیشن فائل کرینگے اس میں آپ کو جو ہے اگر عدالت عالیہ ہائی کورٹ سمجھے گی کہ ہاں آپ کا کیس بہتر ہے تو وہ آپ کو ڈاریکشن دے دے گی ۔ یہ تو ہے جناب اگرآپ کا مقدمہ درج نہیں ہوتا تو یہ اب دوبارہ میں آجاتا ہوں چیک کی طرف اب 489ایف کا یہ سارے تدارک ہوگئے یہ سارے کچھ ہوگیایہاں پے لوگ ایک غلطی کربیٹھتے ہیں ۔ وہ غلطی کیا ہے؟ جب 489ایف پی پی سی ضابطہ تازیراتِ پاکستان کے تحت مقدمہ درج ہوجاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسی مقدمے کی بنیاد پر اس کے پیسے ریکور ہوجائیں گے ۔ 80فیصدہوجاتے ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ۔ لوگ جیل جانے سے ڈرتے ہیں یا لوگ جیل میں رہتے ہوئے تھک جاتے ہیں کہ پتہ نہیں ضمانت ہونی کے نہیں چلو صلح کرلیں کچھ پیسے دے دیں کچھ کی قسطیں کرلیں سارے پیسے دے دیں آدھے پیسے دے دیں کوئی بھی معاملا ہوسکتا ہے اس کے معاملات حل ہوجاتے ہیں لیکن چیک ایک آلہ ہے ۔ ایف آئی آر کے تحت ریکوری نہیں ہوسکتی ۔ یہ ریکوری کورٹس نہیں ہے فوجداری کی پرچے کی بنیاد پر اگرکسی کورٹ کو یہ کہیں کہ ریکور کرواکر دے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ ریکوری کورٹس نہیں ہے اس کامناسب فورم یہ ہے کہ آپ اسی بنیاد پے جس بنیاد پر ایف آئی آر کروائی ہے اسی بنیاد پے آپ ریکوری کا دعویٰ دائر کریں ایڈیشنل سیشن جج کے پاس سیشن جج کے پاس آپ فائل کرینگے ایڈیشنل سیشن جج کو مارک ہوگا آرڈر 37 ضابطہ دیونی کے تحت اس میں سالہاسال نہیں لگتے کہ آپ یہ سمجھیں کہ اس میں سالہا سال لگتے ہیں وہ سمری پروسیجر اڈوپٹ ہوتا ہے جب آپ مناسب طریقے سے دعویٰ دائر کرینگے تو اس دعوے میں مدا علیہ جو کہ آپ کا ایف آئی آر میں ملزم ہے عدالت اتنی آسانی سے اس کواجازت نہیں دے گی مقدمے میں پیش ہوکے مقدمے کا دفع کرنے کا وہ کہے گی مجھے وہ وجوہات بتائوجس کے تحت میں تمھیں دفع کا موقع دوں ۔ اگر وہ وجوہات نہیں بتا سکتا تو وہ دعویٰ ریاستی ڈگری ہوگا قبول ہوگا اور قبول ہونے کے بعد فائل عمل درآمد ہوگی فائل عمل درآمدہونے کے بعد آپ کی ریکوری ہوگی خواہ اسکی جائیداد بیچ کرہو خواہ اس کو اند ر بھیج کر ہو ۔ اس لئے 489 ایف چیک ڈس اونرکا مقدمہ آرڈر37 ضابطہ دیوانی کے تحت دعویٰ اگر یہ دونوں ساتھ ساتھ چل پڑیں گے تو آپ کی جان جلدی چھوٹ جائے گی اب آرڈر37 کاجو بھی دعویٰ دائرکرئے اس میں ایک چیز کادیھان رکھیں ایک تو فیکس ہوگئے تاریخوں کے ساتھ اب دعوے میں آپ نے و یسے ہی نہیں لکھ دینا کہ یہ فلاں آیافلاں نہیں تاریخوں کے ساتھ وجہ کے ساتھ وہ آپ کے وکیل صاحب آپ اچھے وکیل کرینگے تو وہ آپ کے وکیل صاحب لکھیں گے لیکن آپ نے اپنے وکیل کو ہدایت کرنی ہے کہ آپ نے جو مجھ سے فیس لی ہے جو اس پے پندرہ ہزار کورٹ فیس لگی ہے جو اس پے اخراجات ہوئے ہیں وہ اس دعوے کے ساتھ ناصرف منسلک کریں بلکہ دعا میں وہ چیز مانگے تاکہ کل کو جب یہ دعویٰ ڈگری ہوتا ہے تو آپ کی کورٹ فیس بھی آپ کو واپس ملے آپ کے وکیل کی فیس بھی آپ کو واپس ملے کیوں آپ کے وکیل کو دی ہوئی فیس آپ کو کیوں واپس ملے ۔ کورٹ فیس آپ کو کیو ں واپس ملے آپ کے اخراجات آپ کو کیوں واپس ملے اس لئے کہ آپ تو گھر پر بیٹھے ہوئے تھے آپ کو عدالت پے آنے کیلئے مجبور اس ملز م نے کیا آپ کو عدالت آنے کیلئے مجبور اس مداعلیہ نے کیا آپ تو سیدھے سیدھے کاروباری تھے یا سیدھے اس کی مدد کی یا آپ نے اس کو قرض دیا یا جو بھی صورت حال تھی ۔ آپ اپنی خوشی سے عدالتوں میں نہیں آئے وہ لے کر آیا ہے اور اگر آپ کا وکیل یہ ثابت کردیگا کہ ہم اس عدالت میں آئیں ہیں اس کی وجہ سے اورہم جیت بھی گئے ہیں ہم حق پے بھی تھے اگر یہ ہمارا حق تسلیم کر لیتا ہ میں ہمارا حق دے دیتاتو ہم ان عدالتوں میں نہ آتے، ہ میں وکیلوں کی فیسیں نہ بھرنی پڑتی ۔ اب وکیلوں کی فیسیں یہ اخراجات، یہ کورٹ فیس ہم نے اس نے مجبور کیا تو ہ میں دینا پڑی اسلئے یہ بھی اس سے ریکور کروا کر دیں عدالتیں آپ کو دیگی ۔ آرڈر 37 کے 90فیصددعواجات میں یہ چیزنہیں مانگی جاتی جس کی وجہ سے نہیں ملتی ۔ اُمید کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو چیک کے بارے میں اور مقدمہ درج نہ ہونے کے بارے میں سارا طریقہ کاربتا دیا ۔
Leave a comment