پاکستان میں خلع کا قانون
Admin
06:50 AM | 2020-03-17
پاکستان میں خلع کا قانون خلع کے قانون میں دو پہلو مد نظر رکھے جاتے ہیں ایک قانونی اور ایک شریعی ۔ ہمارا ٓئین پاکستان اسلامی قوانین اور اسلامی اصول و ضوابط پر بناہے ۔ کوئی ایسا قانون جو قرآن اور سنت کے منافی ہے وہ غلط ہے ، اسلامی نظریاتی کونسل ایک ادارہ ہے اپنے قوانین اپنے نطریات دے رہا ہے اور مسلسل دے رہا ہے اس پر عمل ہورہا ہے یا نہیں یہ ایک دوسری بحث ہے ۔ خلع کا اسلامی تصور ہے کہ عورت مرد سے طلاق لینا چاہتی ہے اور وہ اپنے منہ سے مرد کو کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو اور مرد اس کو اپنی مرضی سے حالا ت و واقعایات کو سمجھنے کے بعد طلاق دے دیتا ہے اور بدلے طلاق ی
ا بدلے خلع میں وہ آدھا حق مہر ، پورا حق مہر لیتا ہے یا معاف کردیتا ہے اس کو خلع کہتے ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ اعلان کیا تھا کہ خلع بغیر خاوند کی رضا مندی کے غیر اسلامی ہے ۔ اسلامی نطریاتی کونسل نے یہ اعلان کیا تھا کہ خلع خاوند کا حق سے کہ وہ دے ، عدالت خاوند کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی ۔ ہمارے ملک میں وہ این جی اوز شریعت پےحاوی ہیں ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور پیسے کی محبت میں وہ اندھی دوڑ میں دوڑتے چلے جارہے ہیں آخرت خراب کر رہے ہیں دنیا کما رہے ہیں ۔ آ پ کو خلع کا تصور بتا دیا کہ خلع بغیر خاوند کے بالکل جائز نہیں ہے ، غیر اسلامی ہے یہ اسلامی نظریاتی کونسل کہہ رہی ہے جو کہ ہمارا جدیت ادارہ ہے۔ اب دوسری طرف قوانین کی بات عورت نے خلع کو ڈگری کروالیا اب وہ بسنا چاہتی ہے یا عورت نے خلع کو ڈگری کروالیا شوہر بسانا چاہتا ہے۔ بہت زیادہ تناسب ہے ایسے مقدمات کا ایسے مسائل کی بڑی وجہ اسلام اور قانون کے ساتھ ناواقفیت ہے ۔پاکستان کی عدالتوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ خلع ایک طلاق کے برابر ہے یہ پی ایل ڈی ۲۰۱۰ کراچی صفحہ ۱۳۱ میرے ان بہن بھائیوں والا ہی مسئلہ تھا۔ خلع تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک آپ بدلہ خلع ادا نہیں کر دیتیں خواہ وہ ایک روپیہ حق مہر ہے ، پانچ کڑوڑ حق مہر ہے ۔ جب خلع کی ڈگری پاس ہوتی ہے تو اس میں ادا شدہ حق مہر آ پ کو واپس کرنا پڑتا ہے قظِ نظر اس بات کے کہ وہ کتنا ہے عدالت نے کہا وہ واپس کرنا پڑتا ہے ، واپس کس کو کرنا ہے شوہرکو لہذا شوہر کو بتائے بغیر خلع نہیں ہوسکتی ۔ یہ سب کچھ اب اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام سے اچھا مذہب کوئی نہیں ہے ۔ ہر پریشانی کا ہر مشکل کا حل اس طریقے سے بتایا ہوا ہے کہ جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو ۔ ایک شخص نے تین طلاقیں اکٹھی دے دیں اسلام نے بڑا واضع کہا ،غلط کام کیا ہے خمیازہ بھگتو طلاق ہوگئی ۔ کچھ فقہ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہیں ایک ہی تصور کی جائےگی ۔ سنی فقہ کہتا ہے کہ کہ تین دفعہ طلاق ہوگئی تم نے اللہ کے بتائے ہوئے قوانین اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل نہیں کیا اس کا خمیازہ بھگتو۔ اب خلع عدالت نے ۲۰۰۰ ایم ایل ڈی ۸۲۲ میں بھی اعلان کر دیا کہ یہ ایک طلاق ہے ۔ اور پھر یہ بیان کیا گیا کہ جب تک آپ وہ حق مہر واپس نہیں کرتیں تب تک آ پ کی شادی ختم نہیں ہوتی ۔ اب اگر خلع ایک طلاق ہے بمطابق قانون تو آ پ دوبارہ نکاح بغیر کسی تیسرے بندے کی مداخلت کرسکتی ہیں اور اپنی زندگی کو گزار سکتی ہیں ۔ اس معاملے میں باقاعدہ طور پے قانون سازی ہو کہ یہ جو خلع کا ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا ہے کہ عورت آ تی ہے مرد کے گھر کا غلط پتہ لکھا دیتی ہے ، خلع لیا، یونین کونسل میں جمع کروایا اور کروانے کے بعد طلاق کی ڈگری لے لی اور آگے شادی کرلی عورت کو اس چیز سے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اس کے خلاف ہے۔
Leave a comment