الیکٹرونک میڈیا کی حالتِ زار --
Admin
10:55 AM | Jan 30
اگر آپ نے میڈیا کے حالات دیکھنے ہو تو آپ نیوز سن لیں ۔ نیوز کیا ہوتی ہیں عجیب سا ہیجان بھرپہ ہوتا ہے خبروں کے نام پر سنسنی پھیلائی جاتی ہے ۔ ہیڈ لائن وہ ہوتی ہیں جس سے سنسنی پھیلے مثلاَ قتل ہوگیا، اغوا ہوگیا یا پھر ایسی خبر ہوگی جس سے منفی اثرات پھیلیں ۔ خبروں کو دیکھنے والوں کو لگے کہ حالات خراب ہوگئے ہیں ایسا کیوں؟ آج کل خبروں کے نام پر پروپیگنڈہ ہورہا ہے تجزیہ کے نام پر سرکس لگی ہوتی ہے ۔ آج کل صحافت تو کہیں غائب ہی ہوگئی ہے صحافت کے نام ٹاءو ٹی کی جارہی ہے پولیٹیکل پارٹیز ان صحافیوں کو ٹاءوٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ ایک افواہ پھیلانی ہوتی ہےتو
ان صحافی نامہ ٹاءوٹوں کو بلایا جاتا ہے کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں اور پھر چند روپے اس کو ڈال دیتے ہیں جو اس کے ضمیر کی قیمت ہوتی ہے ۔ اب یہی ٹاءوٹ نما صحافی کسی ٹی وی پروگرام میں بیٹھ جاتا ہے اور اپنے آپ کو ویل انفرمڈ ثابت کرتے ہوئے ساری بات سنانا شروع کردیتا ہے جو کہ ان کو کس مقصد کے تحت فیڈ کی ہوتی ہے ۔ اب یہ صحافی نما ٹاءوٹ دلالی کا حق ادا کرتے ہوئے اس طرح بیان کرتا ہے جسے جب یہ بات ہو رہی تھی تو وہ اس وقت وہی موجو د تھا اور اب ایسا ہی ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ صحافی نما وداللوں کو جو خبر بتائی جاتی ہے اس کا مقصد صر ف ایک افواہ پھیلانا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک جھوٹ ہوتا ہے جو کسی خاص مقصد کے تحت پھیلایا جاتا ہے ۔ ان صحافی نما ٹاءوٹوں کو یہ خوش فہمی بھی ہوجاتی ہے کہ یہ گورنمنٹ بنانے اور توڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ا ن کی اوقات ایک مہرے سے زیادہ نہیں ہوتی وہ بھی جو صرف غلط معلومات پھیلانے کے لیے یوز ہوتا ہے ۔ آج کی صحاف ٹاءوٹی اور جھوٹ پھیلانے کے نام ہے۔ جو جتنا بڑا ٹاءوٹ یا جھوٹ ہے آج کے دور میں وہ اتنا بڑا صحافی ہے ۔ آج بھی اچھے صحافی موجود ہیں لیکن یا تو وہ کنارہ کشی کر چکے ہیں یا وہ بہت پیچہے چلے گئے ہیں ۔ اس سارے میں قصور صرف خونی صحافیوں کا نہیں بلکہ ہمارا بھی ہے عام پبلک کا کیونکہ آج کی صحافت وہ بتاتی ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں اگر ہم اپنی زندگی سے سنسنی سنانا بند کردیں تو ہم اس طرح کے خونی صحافیوں سے جان چھڑوا سکتے ہیں ۔ ان کی غلط فہمی دور کرسکتے ہیں کہ یہ حکومت کو اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں ۔ ایک صحافی جو اپنے آپ کو افلاطون سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا ۔ کبھی آپ اس کو سنیں تو ایسا لگے گا کہ زندگی اور موت کےعلاوہ باقی سارا اختیار اس کے پاس ہیں ۔ اگر ا ن کے پاس کوئی نیوز نہ بھی ہو تو یہ خود سے گھڑ کر بنادیں گے ۔ آج کا خونی صحافی ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جو اس معاشرے کوتبا ہی داہنے پہ لے گیا ہے ۔ خدارا ایسے صحافیوں کو سننا بند کریں نہیں تو یہ ہمیں تباہ کردیں گے صرف اپنے مطلب کی خبریں سنیں ۔
Leave a comment